Cherreads

Chapter 1 - باب 1 (آغازِ داستان)

1... قسط

" "کسی پر قہرِ فلک نازل ہوا تھا

"کسی پر ارض و سما تنگ تھے"

"کوئی گرا تھا سجدۂ وارفتگی میں محبت کی خاطر"

"کوئی گرا تھا نظروں سے کسی کے کبیرہ کے بعث"

"کسی کے گناہوں کا کفارہ کسی کو ملا تھا"

" کسی کو تہمتِ بے کردار سے داغا گیا تھا"

"کسی کے صبر کی آزمائش حد سے سوالی گئی تھی"

"کوئی مرا تھا کسی کے ہجر کی اذیت میں"

"وقت بدلا تھا نسیم کی بے ثیاتی کی طرح"

"ظلمات پھیل چکی تھی ہر ایک کی زندگی میں"

"خوشیاں حیف کہ کس کو راس آئی

کمرے کی دیواریں بوسیدہ ہو چکی تھی۔۔۔ اور ان پر پھیلے جابجا بدبودار داغ پرانے زخموں کی ایسی کہانی سناتے تھے جیسے سننے کی ہمت کسی میں نہ ہو۔۔ فرش مٹی اور گرد سے اٹا ہوا تھا جیسے ان پر برسوں سے کسی نے قدم نہ رکھا ہو۔۔ کھڑکیوں پر لگی سلاخیں

راستوں میں یوں کھڑی تھی جیسے اندھیرے کی حفاظت پر مامور سپاہی ہوں۔۔۔کمرے میں ہر طرف بوجھل تاریکی چھائی ہوئی تھی۔۔کمرے کے ایک ٹھنڈے اور سنساٹے بھرے گوشے میں وہ لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔۔ اپنا سر دیوار سے لگائے اس کے بال بکھرے پڑے تھے۔۔۔رنگت سانولی تھی۔۔۔ اندھیرے کی وجہ سے اس کے نقوش واضح نہیں تھے۔۔۔وہ چپ چاپ بیٹھی ہوئی تھی۔ شور اس کے کانوں میں مسلسل چل رہا تھا۔۔۔ایسا شور جو کبھی ختم نہیں ہوتا تھا۔۔۔وہ اب بے حس و حرکت دیور سے سر ٹکائے بیٹھی تھی۔۔۔ جیسے اسے کوئی آواز سنائی نا دے رہی ہو۔۔۔ جیسے وہ کہیں اور ہی گم ہو۔

☆☆☆☆☆☆☆

موئز۔۔موئز۔۔وہ ہلک کے بل چلایا تھا۔۔

کیا ہے!"اتنا چلا کیوں رہے ہو۔۔مر تھوڑی نا گیا تھا میں"۔۔وہ پورچ میں داخل ہوتے ہوئے بولا۔۔

"یہ میری گاڑی کی حالت تم نے کی ہے نا؟"اس نے گاڑی کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔۔"میں نے کچھہ نہیں کیا مجھے موم نے کہا تھا"۔۔اس نے صفائی دینے کی کوشش کی۔۔پر مقابل اس کی بات کاٹ گیا۔۔

"میں نے تم سے یہ نہیں پوچھا موئز!؟" میں نے کتنی بار منا کیا ہے تمھارے دماغ میں بات کیوں نہیں بیٹھتی۔۔کیا حال کیا ہے گاڑی کا"۔۔وہ غصے سے برس پڑا۔۔چہرا سرخ ہو رہا تھا۔۔اس کی نظریں سامنے کھڑے شخص پے ٹکی ہوئی تھی۔۔

"مجھہ پر کیوں چلا رہے ہو جا کر اپنی ماں کو کہو کے مجھے نہ کہا کرے تمھاری گاڑی لے جانے کو"۔۔۔اس نے جیسے بیزاری سے میں کہا۔۔

"میری گاڑی لے جانے کو کہا موم نے؟ دوسری گاڑیاں کیا کباڑ خانے میں بیجوانی ہے انہوں نے"۔۔اس نے چڑ کر کہا۔۔"یہ بھی تم انہی سے جا کر پوچھہ لو"۔۔وہ تم پے زور دیتا پیر پٹکتا اندر کی جانب بڑ گیا۔۔

معاذ نے غصے سے اپنی لات گاڑی پے دے ماری۔۔اور زور سے مارنے کی وجہ سے اگلے ہی پل وہ درد سے اپنی ڈانگ پے ہاتھہ پکڑے بیٹھہ گیا۔۔

☆☆☆☆☆☆☆

صبح کی پہلی کیرن نے اندھیری رات کو دور کر دیا تھا۔۔۔اور سورج کی کیرن نے زندگی کو نیاں رنگ دیا تھا‌۔۔۔پر ہاسٹل میں ابھی تک اندھیری رات کا سما تھا۔۔۔مری میں ٹھنڈی ہواؤں میں صبح کا وقت بہت ہی خوبصورت ہوتا تھا۔۔۔ہر طرف خاموشی تھی۔۔۔ اچانک خاموشی میں شور سا پھیلا۔۔۔ وہ نیند میں کسمسائی۔۔۔وہ شور مسلسل چل رہا تھا۔۔۔۔ جو اسکی نیند میں خلل ڈال رہا تھا تھوڑی دیر میں اس نے اپنی نیم آنکھیں کھولی۔۔پھر بھی اسے ایسے لگا۔۔۔جیسے اسکی آنکھیں بند ہیں کمرا اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا ۔۔۔اور شور ختم نہیں ہو رہا تھا۔۔۔جب اسے پوری طرح ہوش آیا تو احساس ہوا کہ وہ آواز علارام کی ہے۔۔۔ اس نے ایسے ئی کمبل میں لیٹے اپنا ہاتھہ آگے بڑھایا۔۔۔ اور ٹیبل پے رکھے الارام کو بند کر دیا۔۔۔ ایک بار پھر وہ نیند کی وادیوں میں چلی گئی۔۔۔تقریبن صبح کے نوں بجے اسکی آنکھہ کھلی۔۔ وہ اٹھہ کر اپنی آنکھیں مسل رہی تھی۔۔۔ پورے کمرے کا جائزا لیتے۔۔۔ وہ کچھہ حیران ہوئی۔۔۔ پورا کمرا خالی تھا۔۔۔ سامنے دیوار میں گھڑی پے نظر پڑتے۔۔۔ وہ چونک گئی۔۔۔ اور جلدی میں کمبل اپنے اوپر سے ہٹاتے باتھہ روم کی جانب بڑ گئی۔۔۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ فریش ہو کے باہر نکلی گیلے بالوں کا پانی ٹپ ٹپ زمین پے گر رہا تھا۔۔۔ وہ ٹولیہ اٹھائے بال سکھانے لگی۔۔۔ تو سامنے بیڈ کی سائیڈ کھڑی لڑکی پے اسکی نظر پڑی۔۔۔وہ چلتی ہوئی اس کے پاس آئی۔۔۔

تم کیا یونی نہیں گئی؟" وہ زارا سے مخاتب ہوئی جو بیڈ کے ساتھہ لگے کبٹ میں سے کچھہ ڈونڈھہ رہی تھی۔۔

"یونی سے ہی آرہی ہوں اسائمینٹ میں ادھر ہی بھول گئی تھی"۔۔اس نے کبٹ سے اسائمینٹ نکالا اور کھول کے اسے چیک کرنے لگی۔۔

"اچھا چلو پھر ساتھہ چلتے ہیں"۔۔وہ آئنے کے سامنے کھڑی ہو کر بالوں کو برش کرنے لگی۔۔"تم آجانا مجھے لیٹ ہو رہا"وہ یہ کہہ کر باگتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔۔ماہ نور نے دروازے کی طرف دیکھا جہاں سے وہ نکل گئی اور گہری سانس لے کر اپنے بال سیٹ کرنے لگی۔۔بالوں کو برش کر کے اس نے بال کھلے ہی چھوڑ دیے اور اپنی شال کندھوں کے گرد اوڑھے بیگ کندھے پے اٹکائے وہ باہر نکل گئی۔۔

یونیورسٹی پہنچتے اس نے اپنی اسائمینٹ سبمیٹ کروائی اور اپنی کلاس میں چلی گئی۔۔کلاس میں اس نے نظریں دوڑائی اسے اپنی فرینڈز میں سے ایک ادد زارا ہی نظر آئی تھی۔۔جو اس سے تھوڑا دور دوسری بینچ پے بیٹھی تھی۔۔

اووئے زارا!؟ اس نے سرگوشی نما آواز میں اسے مخاطب کیا۔۔اس کی آواز سن کر زارا نے سامنے کھڑے سر سے نظریں ہٹائے اسے دیکھا۔۔اور ہاتھہ کے اشارے سے پوچھا۔۔"کیا؟ "

"سائرا اور ردا کہاں ہیں کلاس میں کیوں نہیں آئی؟ "۔۔اس نے پوچھا۔۔

پتا نہیں کہاں ہیں، میں نے نہیں دیکھا ان دونوں کو"۔۔اس نے مدھم آواز میں کہا۔۔اور پھر دونوں چپ ہو کر سر کا لیکچر سننے لگی۔۔کلاس ختم ہوتے زارا اس کے پاس آئی۔۔

تمہیں پتا ہے آج پھر ردا کا جھگڑا ہوا ہے"۔۔وہ دونوں چلتے ہوئے کلاس سے باہر نکلی۔۔

"کس کے ساتھہ"۔۔ماہ نور نے ٹھر کر پوچھا۔۔

وانہ کے ساتھہ"۔۔اب زارا آگے کی طرف بڑی تو ماہ نور بھی اس کے ساتھہ چلتی رہی۔۔"مجھے بہت برا لگ رہا تھا اس کے لیے اس کی سب کے سامنے ردا نے انسلٹ کی"۔۔اس نے دکھی لہجے میں اظہار کیا۔۔ماہ نور نے اپنے ہونٹوں کو کاٹا۔۔

کیا ہوگا اس کا؟ کیا کر سکتے ہیں ہم"۔۔ماہ نور نے بے بسی سے کہا۔۔اس کے الاوہ وہ کچھہ کہہ بھی نہیں سکتی تھی۔۔آخر ردا ایسی ہی تھی اپنی منمانی کرنے والی کسی کی نا سننے والی۔۔پوری یونیورسٹی میں وہ مشہور تھی۔۔بہت لوگ اسے کم ہی ولیو دیتے تھے وہ لوگ جو سمجھدار ہوتے تھے وہ جو یہ جانتے تھے کہ ہماری زندگی پر ہمارے الاوہ کسی کا حکوم نہیں چلتا۔۔اور ایسے لوگ جو شریف ہو معصوم وہ ان کو کھا جاتی تھی۔۔وہ دوسروں کے ساتھہ جسی بھی تھی پر اپنے دوستوں پر جان چھڑتی تھی۔۔

ہیلو گرلس"۔۔اسد نے پیچھے سے آتے ہوئے کہا۔۔اور ان کے سامنے آن کھڑا ہوا۔۔

"فرماؤ"۔۔ماہ نور نے چہرا بیگاڑے کہا۔۔

آہاں اتنا ادب لگتا ہے آج سرکار کا موڈ خراب ہے"۔۔اس نے اس کے چہرے کا جائزا لیتے اندازا لگایا۔۔کون واقف نہیں تھا ماہ نور سے وہ اکثر ہر کسی سے خوش دلی سے بات کرتی تھی اور جب اس کا لہجے میں میٹھاس ہو یا

چڑچڑا پن تو مطلب اس کا موڈ خراب ہے۔۔

"بلکل خراب ہی ہے،تم اپنی خیر منانا چاہتے ہو تو بھاگو"۔۔زارا نے اسد کو جیسے انفارم کیا یہ تینوں یونیورسٹی کے کیفیٹیریہ کے سامنے کھڑے تھے۔۔

"اچھا بھئ پہلے میری بات سن لو،رات کو میری طرف سے پارٹی ہے آجانا ٹائیم پر"۔۔اس نے سامنے کھڑی دونوں لڑکیوں کو پارٹی کا انویٹیشن کیا۔۔

"کچھہ زیادہ پیسے نہیں آگئے تمھارے پاس"۔۔زارا نے آئبرو اچکائے پوچھا تو وہ بے اختیار ہنس پڑا۔۔

"زیادہ سے بھی زیادہ آجانا دونوں ٹائیم سے رات میں ملاقات ہوگی"۔۔اس نے جاتے ہوئے اونچی آواز میں کہا۔۔وہ دونوں اب کیفیٹیریہ کی طرف بڑ گئی۔۔

☆☆☆☆☆☆

جیسے ہی سورج غروب ہوا اور مری کی ٹھنڈی ہوا چلنے لگی، ہاسٹل کا اگلا لان ایک شاندار ریسٹورنٹ کا منظر پیش کرنے لگا۔ قدیم عمارت کے سفید ستونوں پر رنگ برنگی فیری لائٹس (Fairy lights) لپیٹ دی گئی تھیں جو ماحول کو روشن کر رہی تھیں۔ لان میں بڑے، گول میزیں بچھائی گئی تھیں جن پر صاف ستھرے میز پوش اور خوبصورت کرسیاں لگی تھیں۔ ہر میز پر ایک چھوٹی، خوشبودار موم بتی جل رہی تھی جو ایک پرسکون اور نفیس ماحول پیدا کر رہی تھی۔ماہ نور چیئر پے بیٹھی تھی بال اس کے کھلے ہوئے تھے کندھوں کے گرد سیاہ بخمل کی شال اوڑھی ہوئی تھی۔۔سیمپل گلابی ڈریس میں ملبوس سادہ سا میکپ کیے۔۔وہ سب سے خوبصورت اور مختلف لگ رہی تھی۔۔

"تم یہاں کیوں بیٹھی ہو؟"۔۔ ردا جو آگے سے گزر رہی تھی اسے اس طرح اکیلے بیٹھے دیکھہ اس کے پاس آکر کھڑی ہوئی۔۔سیاہ شرٹ جینز میں ملبوس بال دو حصوں میں آگے کی طرف کیے سنجیدہ تاثرات کے ساتھہ وہ اسے گور رہی تھی۔۔

"تو کہاں جاؤں؟ "اس نے بھی سنجیدہ تاثرات کے ساتھہ پوچھا۔۔

"چلو انجوائے کرو پارٹیز کس لیے ہوتی ہیں"۔۔ردا نے ماہ نور کا ہاتھہ پکڑے اسے اٹھانا چاہا پر ماہ نور نے اس کا ہاتھہ جھٹک دیا۔۔ردا نے اسے ہنوار نگاہوں سے دیکھا۔۔اور اس کے سامنے والی چیئر پے بیٹھہ گئی۔۔

"کیا ہوا ہے؟ "اس نے بالوں کی لٹ کو کان کے پیچھے کیا جو اس کے چہرے پے گر رہی تھی۔۔

"تمہیں اس سے کیا فرق پڑے گا ردا؟" ماہ نور نے خفگی سے کہا۔۔

"ارے بھئ بتاؤ تو سہی کیا ہوا ہے اب تو میں نے کچھہ کیا بھی نہیں ہے"۔۔اس نے کندھے اچکائے۔۔تو ماہ نور نے اسے دیکھا۔۔

"تم نے صبح یونیورسٹی میں پھر تماشہ کیا ہے؟" اب کی بار وہ کہے بغیر نہ رہ سکی اسے غصہ تھا وہ ناراض تھی اس سے ہاں اسے نہیں برداشت تھا اس سے جڑے لوگ کسی کو تکلیف دیں یا کسی کے ساتھہ برا کریں۔۔کیونکہ وہ خود دوسروں کو ہرٹ نہیں کرتی تھی اور اس کی کوشش ہوتی تھی کوئی اس کی وجہ سے ہرٹ نہ ہو۔۔

آئے سوئیر!"میں نے شروع نہیں کیا تھا۔۔اس نے خود ٹانگ اڑائی مجھہ سے پھر میں نے بھی سبق سکھایا"۔۔اس نے اپنی صفائی میں کہا۔۔

"کیا ملا اسے سبق سکھا کے؟"وہ پوچھے بغیر نہ رہ سکی۔۔

"سکون"۔۔اس نے ہلکا مسکرائے کہا۔۔ماہ نور نے غصے سے اسے غورا یقینن وہ کبھی بدلنے والی نہیں تھی۔۔

"اچھا بابا اب نہیں کروں گی پکا آجاؤ"۔۔وہ دوبارا اٹھہ کھڑی ہوئی۔۔اور اس کا ہاتھہ پکڑے اسے اٹھانے لگی۔۔

"تم یہاں کیوں بیٹھی ہو یار میں نے تمہیں کہا بھی میں واپس آؤں تو مجھے تم یہاں نظر نا آؤ"۔۔زارا چھری چھری لے کر بولی۔۔وہ پارٹی میں ماہ نور کے ساتھہ ہی آئی تھی۔۔پر وہ اپنا فون ہاسٹل بھول آئی تھی۔۔اور جاتے وقت ماہ نور کو کہہ کر گئی تھی کہ سامنے اسٹیج پے چلی جانا جہاں سب لوگ جھم رہے تھے کچھہ کھڑی ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے۔۔پر ماہ نور کا دل بلکل نہیں تھا اس لیے اس کی واپسی تک بھی وہ وہیی بیٹھی تھی۔۔

"ہاں دیکھہ لو تم ہی اس کو میں خود کب سے کہہ رہی ہوں اس کو پر مجال ہے جو سن لے"۔۔ردا نے اب منہ موڑ کر کہا۔۔اور تھوڑا سائیڈ پے ہوگئی۔۔زارا نے آگے بڑ کر اس کا ہاتھہ پکڑا اور ایک دم سے کھنیچ کر اسے اٹھایا۔۔

"تم تینوں یہاں کھڑی ہو میں ڈھونڈ رہی ہوں تم لوگوں کو"۔۔سائرا ان کے سامنے آن کھڑی ہوئی تو ماہ نور بے اختیار ہنس دی۔۔اففف اس کی دوستیں اس کے بغیر نہیں رہ پاتی تھی اور یہ بات ماہ نور کے لیے عیزار کی بات تھی۔۔اس کے اچانک ہنسنے پر ان تینوں نے اسے چونک کر دیکھا۔۔تو اس نے اپنی مسکراہٹ سمیٹی۔۔

"چلو اب، مجھے کیا دکھہ رہی ہو"۔۔اس نے ان کو ایک نظر دیکھے کہا اور آگے کی طرف بڑ گئی وہ بھی اس کے پیچھے چل دی۔۔

سب ایک دوسرے کے ساتھہ باتوں میں لگے تھے پورے حال میں سب کے قہقے گونج رہے تھے ماہ نور بھی اب پارٹی کو انجوائے کرنے لگی تھی۔۔وہ دو لوگوں کے ساتھہ کھڑی ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی اچانک اس کا مبائل بجا وہ ان سے اکسکیوز کر کے سائیٹ پے جانے لگی کال اٹین کرنے کے لیے کے اچانک وہ کسی سے ٹکرا گئی۔۔یا یہ مانو کوئی اس سے جان بوج کر ٹکرایا۔۔

"اندھے ہو"۔۔اس نے غصے سے سامنے کھڑی لڑکے کو دیکھا اور پھر نیچے پڑے اپنے مبائل پے نظر ڈالی اور جھک کر مبائل اٹھایا مبائل کی اسکرین تھوڑی ٹوٹ چکی تھی اس نے ایک بار پھر اس لڑکے کو دیکھا اس کا دل چایضہا اس کا سر پھاڑ دے۔۔

"کہاں گم رہتی ہو میڈم؟" وہ جانے کے لیے آگے بڑی کے اس کے بے تکے الفاظ پے مجبورن اس کے پءر تھم سے گئے۔۔

"تم سے مطلب؟ "وہ سینے پے ہاتھہ باندھے سختی سے اس سے مخاتب ہوئی۔

اتنا چڑ کیوں رہی ہو؟ م"۔۔اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔ماہ نور نے اس پر ایک سخت نگاہ ڈالی اور مزید کچھہ کہے

بغیر وہاں سے چلی گئی۔

۔

فارس ان کے ساتھہ ہی یونیورسٹی میں پڑتا تھا۔۔اور کون واقف نہ تھا کہ وہ کتنا گھٹیا اور گرا ہوا ہے۔۔کچھہ وقت سے وہ ماہ نور کے پیچھے پڑا تھا۔۔اور وہ اسی طرح اسے بیزت کرتی تھی کیوں کی وہ ماہ نور پاشا تھی۔۔اور وہ جانتی تھی ایسے لوگوں کو سیدھا کرنا۔۔وہ مضبوط نہیں تھی وہ مضبںط بنتی تھی لوگوں کے سامنے۔۔

☆☆☆☆☆☆☆

سائرا تم پیکنگ کیوں کر رہی ہو؟۔۔۔کیا تم واپس گھر جا رہی ہو؟"۔۔۔اس نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔

"ہاں"۔۔۔ اس نے صرف اتنا ہی کہا۔۔

وہ اپنے کپڑے بیگ میں ڈالنے میں مصروف تھی۔۔۔ اس کا چہرا مرجھا ہوا معلوم ہو رہا تھا۔۔۔جیسے وہ کسی کیفیت کا شکار ہو۔۔۔ ماہ نور اسے دیکھہ سمجھہ چکی تھی۔۔۔

"خیریت کیا ہوا ہے یوں اچانک"۔۔۔ ماہ نور نے اسکا ہاتھہ پکڑے اپنی طرف متوجہ کرتے پوچھا۔۔۔

"امی کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہوگئی ہے"۔۔۔

وہ نم آنکھوں سے بولی۔۔۔ اسکا لہجا بہت دھیما اور اس میں اداسی واضح تھی۔۔

"کیا ہوا آنٹی کو ؟"۔۔۔اس نے فکرمندی سے پوچھا۔۔۔

وہ بیڈ پے بیٹھی۔۔ امی پہلے ہی ہرٹ پیشنٹ ہے۔۔۔ اور جب سے بھائی کی شادی ہوئی ہے۔۔۔ جیسے وہ بہت بدل گئے ہیں۔۔۔۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر وہ امی ابو سے لڑ پڑتے ہیں۔۔کس کے لیے صرف اپنی وائف کے لیے۔۔ٹھیک ہے اگر انکی آپس میں نہیں بن رہی تو کمپرومائیز کرنا چاہیے نا۔۔ میں یہ نہیں کہہ رہی کے امی بلکل ٹھیک ہے بھابھی غلط ہے نہیں۔۔امی بھی ہر بات پے ٹوک دیتی ہیں۔۔پر اتنا تو خیال کرنا چاہیے کہ بڑی عمر کے ساتھہ ساتھہ انسان چڑچڑا ہو جاتا ہے۔۔پر وہ ہر ایک بات بھائی کو بتاتی ہیں۔۔جب کے نایاب بھابھی نے کبھی ایسا نہیں کیا۔۔وہ امی کا سب کا بہت خیال رکھتی ہیں۔۔امی کا رویہ انکے ساتھہ بلکل اچھا نہیں ہوتا تھا پر انہوں نے بہت کمپرومائزز کیے بہت چیزیں فیس کی۔۔آج امی کو مجھہ سے زیادہ وہ عزیز ہیں۔اور اب بھابھی کا اس طرح رویہ۔نہ وہ ان سے کھانے کا پوچھتی ہیں نا باہر جاتے وقت اجازت لیتی۔ ہر بار جگڑے میں بھائی صرف امی کو جج کرتے۔اور یہی اسٹریس لے لے کر انکی حالت خراب ہو جاتی۔(وہ اب بری طرح چہرے پے ہاتھہ رکھے رو رہی تھی)۔۔

"یار پلیز تم ایسے نا رو دیکھنا سب ٹھیک ہو جائے گا آنٹی بلکل ٹھیک ہو جائیں گی تم ہی ہمت ہار جاؤگی تو انہیں کون سمبھالے گا"۔۔۔ وہ اس کے سامنے کھڑی اس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیے اسے تسلی دے رہی تھی۔۔۔

"کیوں بیٹے بھول جاتے ہیں ماہ باپ کا ہر احسان اور انکے سامنے اس عورت کے لیے لڑتے ہیں جو آئی ہی کل ہے۔۔۔ کیوں وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ زندگی مکافات عمل ہے۔۔۔ آج جو وہ اپنے والدین کے ساتھہ کریں گے کل انکی اولاد انکے ساتھہ کرے گی"۔۔۔ سائرا اس کی آنکھوں میں دیکھہ کے پوچھہ رہی تھی۔۔

"اگر لوگ یہ سمجھہ جائے کہ زندگی بس ایک مکافات عمل ہے تو کبھی کیسی کا دل نا دکھتا۔۔۔ کبھے کوئی اداس نا ہوتا کبھی کسی کو تکلیف نا ہوتی۔۔۔اور کبھی کوئی خدا کے سامنے نا جھکتا"۔۔۔وہ پرسکون انداز میں اسے سمجھا رہی تھی۔۔۔تم پریشان نا ہو سب ٹھیک ہو جائیگا۔۔اس نے پیار سے اسے گلے لگایا۔۔ اور اٹھہ کھڑی ہوئی۔۔کیونکہ اسے یونیورسٹی جانے کے لیے دیر ہو رہی تھی۔۔

"اپنا خیال رکھنا خیر سے جانا پریشان مت ہونا سب ٹھیک ہو جائیگا "۔۔ اس نے پیار سے اسکے گال کو تھپتھپایا۔۔۔

اپنا کوٹ پہنے اسکاف گلے میں ڈالے اس نے سائیڈ ٹیبل پے پڑا اپنا بیگ اٹھایا ایک بک اپنے ہاتھہ میں لی اور اسے اللہ حفظ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔کمرے سے باہر نکلتے وہ ہاسٹل سے باہر آ چکی تھی۔۔۔آسمان میں بادل چھائے ہوئے تھے۔۔۔ ٹھنڈی ھوائیں تیزی سے چل رہی تھی جو اسکے چہرے کو چھو رہی تھی۔۔۔ کھلا لمبا کوٹ، ہاتھہ میں بک،گلے میں اسکاف، ریشمی بال ان میں ڈھیلی بنی چوٹی اس سے قطرہ قطرہ کر کے نکلتے ہوئے بال جو اس کے چہرے پے گر رہے تھے۔۔۔ کھلے میدان میں وہ آہستہ آہستہ قدم بڑھاتی۔۔۔ یونیورسٹی کا گیٹ کھولے اندر داخل ہوئی۔اور سیدھا کلاس میں گئی۔۔۔ سامنے زارا کھڑی کسی سے باتیں کر رہی تھی۔۔۔

"زارا "۔۔۔ماہ نور نے اسے آہستہ آواز دی ۔۔۔

جو شاید اس کے کانوں تک نہیں پھنچی تھی۔۔۔ یا پھر وہ ساتھہ کھڑی لڑکی سے بات کرنے میں اتنی مصروف تھی کہ وہ سن نا پائی ۔۔۔وہ اسکے پاس آئی۔۔۔ اور اس کے سر پے بک ماری جو اس کے ہاتھہ میں تھی۔۔۔اس کے مو سے بے اختیار "سسکی" نکلی جیسے کسی نے کوئی پتھر مارا ہو اسکا بک بھی اتنا ہی موٹا تھا وہ اپنے سر پے ہاتھہ رکھے اس کی جانب پلٹی۔۔

"آہہہ کیوں مارا یار اتنی زور سے"۔۔ وہ درد کی شدت سے کرائی۔۔ اور ابھی تک سر پے ہاتھہ رکھے ہوئے تھی۔۔

"تمھاری سزا ہے یہ"۔۔وہ یہ کہہ کر کلاس سے باہر نکل گئی۔۔وہ اس کی پیچھے لپکی۔۔

"کیوں بہی اب میں نے کون سا جرم کر دیا"۔۔وہ حیرانی سے ہلکا مو کھولے آنکھیں بڑی کیے۔۔اس کے ساتھہ چلتی ہوئی پوچھہ رہی تھی۔۔

"یہی کہ آج تم نے مجھے اٹھایا نہیں"۔۔اس نے خفگی سے کہا۔۔اب وہ دونوں یونیورسٹی کے کھلے میدان پے چل رہی تھی۔۔بالا آخر ماہ نور کے دیر سے اٹھنے کی وجہ سے وہ اپنی ایک کلاس مس کر چکی تھی۔۔اور دوسری کلاس ایک گھنٹے بعد تھی۔۔اس لیے اب دونوں باہر گومنے کے الاوہ اور کیا ہی کر سکتی تھی۔۔

"میں نے تو بہت دفعہ اٹھایا پتا نہیں کیا نشہ کر کے سوئی تھی۔۔۔تم جو اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔۔وہ ہنسی دبائے بولی۔۔۔اور سانیا سے ضروری کام تھا۔۔ مجھے اس لیے میں آگئی"۔۔۔اس نے وضاحت دی۔۔۔

"ہاں اچھا ہے ہر بار اٹھہ جاتی ہوں۔۔۔ اس بار نشہ کیا تھا۔۔بدتمیز۔"۔۔وہ منہ پھلائے بولی۔۔

"تمہیں یقین نہیں آرہا سچی میں! میں نے بہت کوشش کی تم نہیں اٹھی"۔۔۔اس نے ماہ نور کے کندھوں کو جنجھوڑتے کہا۔۔۔پر اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔

"اچھا بابا سوری! اگلی بار ایسے نہیں آؤں گی۔۔۔ تمھارے بغیر کچھہ بھی ہو جائے"۔۔۔اس نے اسے زبردستی پکڑ کے اپنے سامنے سیدھا کیا۔۔

"ٹھیک ہے"۔۔۔وہ ہولے سے ہنس دی۔۔۔ "

☆☆☆☆☆☆

فائزا نے کیچن میں داخل ہوتے ہاتھہ میں پکڑے برتن پھیکنے والے انداز میں شیلف پے رکھے۔۔۔اچانک برتنوں کی آواز پے صائمہ نے چونکہ کر ان کی طرف دیکھا۔۔جو شاید دوپیہر کے کھانے کی تیاری کر رہی تھی۔۔۔

کیا ہوا خیریت تو ہے؟

"وقار احمد کی بیوی ہو کر میں خیریت سے رہ سکتی ہوں"۔۔۔فائزا نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا اور سامنے پڑی چیئر پے بیٹھہ گئی۔۔

"کیا انہوں نے پھر جھگڑا کیا ہے؟" صائمہ بھی اس کے ساتھہ والی چیئر پے آکر بیٹھی۔۔

ہاں بلکل!"انہیں سکون کہاں ملتا ہے جب تک صبح صبح میرا موڈ خراب کر کے میرا دن خراب نہ کریں تو"۔۔۔وہ برا منہ بنائے بولی۔۔

"ویسے جو بات ہے تمھارا شوہر کوئی سائکو ہے۔۔۔اتنی سی بات پر تو چڑ جاتا ہے۔۔اب صبح ملازمہ کو چائے کا کہا اس سے تھوڑی دیر ہو گئی تو جیسے اس بیچاری پر برس پڑے"۔۔۔صائمہ چہرا جھٹکتے اٹھہ کھڑی ہوئی۔۔

"یہی تو بات ہے عورتوں کا بھی کوئی لحاظ نہیں کرتے۔۔پتا نہیں کیا کھا کر بی جان نے اتنےعقلمند بیٹے کو جنم دیا"۔۔۔

"بادام نہیں کھائے اس کے الاوہ سب کچھہ کھایا اس لیے ان کی عقل ہماری سوچ سے بڑھہ کر ہے"۔۔۔صائمہ کی بات پر فائزا بے اختیار ہنس پڑی۔۔صائمہ نے جھک کر فریج سے دودہ نکالا۔۔

"چائے پیوگی"۔۔دودہ چلہے پے رکھتے وہ چلا جلانے لگی۔۔

"ہاں پیلا دو اب یہی ایک طریقہ ہے دماغ ٹھیک کرنے کا"۔۔فائزا نے کہا۔۔

☆☆☆☆☆☆

شام کا وقت دھیرے دھیرے سورج غروب ہو رہا تھا۔

کمرے میں ہلکی سنہری روشنی تھی، اور کھڑکی سے آنے والی خنکی جلد پر پڑ رہی تھی۔

وہ تکیے پر نیم دراز بیٹھی تھی، قرآن پاک کھلا ہوا تھا، ہاتھ کے انگوٹھے سے آہستہ آہستہ صفحے پلٹ رہی تھی۔ہر آیت جیسے دل کے اندر روشنی کا چراغ جلا رہی تھی:

>

1. سورۃ المؤمنون

1) آیت 12

وَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِينٍ

ترجمہ: ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا۔

اس نے اپنے دل میں عاجزی کا احساس محسوس کیا، کہ میں اتفاق سے نہیں، اللہ کے منصوبے سے ہوں۔

2) آیت 13

ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ

ترجمہ: پھر اسے نطفہ میں رکھا اور ایک محفوظ جگہ میں ٹھہرا دیا۔

اس نے رب کی حفاظت اور سکون محسوس کیا۔

3) آیت 14

ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا

ترجمہ: پھر نطفہ جمے ہوئے خون میں بدلا، پھر گوشت کا ٹکڑا ہوا، پھر ہڈیاں بنیں اور ان پر گوشت چڑھایا گیا۔

اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھی۔زندگی کی تخلیق کی پیچیدگی اور رب کی قدرت پر حیرت اور سکون۔آنکھوں میں نمی اتر آئی تھی۔

4) آیت 15

ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ ۚ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ

ترجمہ: پھر ایک دوسری مخلوق بنایا۔ پس بابرکت ہے اللہ، سب سے بہترین پیدا کرنے والا۔

اس کی آنکھیں آنسوں سے لبریز ہوئی تھی۔دل میں ایک اتمنان تھا۔کہ میں سب سے بہترین خالق کی تخلیق ہوں۔

5) آیت 16

ثُمَّ إِنَّكُم بَعْدَ ذَلِكَ لَمَيِّتُونَ

ترجمہ: پھر تم سب مرنے والے ہو۔

اس نے آہستہ سے آنکھیں بند کی تھی۔اور گہرا سانس لیا۔بیشک ہم سب نے رب کی طرف لوٹ جانا ہے۔

6) آیت 17

وَإِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَكُونُونَ فِي بَعْضِكُمْ شُهُودًا عَلَى بَعْضٍ

ترجمہ: اور قیامت کے دن تم ایک دوسرے پر گواہ ہو گے۔

اس کے دل میں خوف سا اترا تھا ایک فکر،ایک کرب،اس نے تو کچھہ کیا ہی نہیں تھا خدا کے لیے۔وہ کیا قیامت کے دن دکھائے گی۔کیا اس کے پاس کوئی نیکی تھی؟ اس نے سوچا تھا۔

7) آیت 18

وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ

ترجمہ: جو کوئی ذرہ بھر نیکی کرے گا، اسے ضرور دکھایا جائے گا۔

اس کا آنسوں گال پے گرا تھا۔بے اختیار منہ سے سسکی نکلی تھی۔اللہ تعالی اتنا غفور رحیم ہے۔اپنے بندے پر۔وہ اپنے رب کی ہر چیز سے نا واقف تھی۔وہ خالق ہے زمین آسمان کا،وہی رب ہے جو انسان کی ہر چھوٹی سی چھوٹی نیکی کا صلا دیتا ہے۔

8) آیت 19

وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ

ترجمہ: اور جو کوئی ذرہ بھر برائی کرے گا، اسے بھی دکھایا جائے گا۔

بیشک وہ رب ہے وہ ہر چیز جانتا ہے وہ ہر چیز سے واقف ہے۔

9) آیت 20

أُ ولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

ترجمہ: یہی لوگ کامیاب ہیں۔

اس کے دل میں سکون سا اترا تھا۔ہاں اب اس کا ارادہ تھا نیکی کرنی کا۔ہاں اب وہ رب کی باتیں جان کر بھی انجان بن جائے تو وہ ایک نیک انسان کیسے بنے گی؟ اسے نیک بننا تھا۔

10) آیت 21

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ

ترجمہ: اور جو لوگ انکار کریں، ان کے لیے سخت عذاب ہے۔

بے شک اللہ تعالی ہر چیز پے قادر ہے۔اگر وہ چاہے تو ہمیں گناہوں کی سزا اس دنیا میں دے دے۔وہ نا فرمانی کرنے والوں کے راستے تنگ کر دے۔وہ ان کے رزق کے دروازے بند کر دے۔پر وہ ایسا نہیں کرتا۔کیوں کے وہ رب ہم سے بہت محبت کرتا ہے۔ہماری ہزاروں غلطیوں کے باوجود ہمیں معاف کر دیتا ہے۔وہ ہمیں بار بار راستا دیکھاتا ہے۔وہ بار بار ہمیں اپنی طرف بلاتا ہے۔اس نے پورا قرآن مجید بجوایا ہے۔اور اس میں فرمایا ہے کہ وہی ہر چیز کا مالک ہے۔ہمیں حدایت دی ہے سیدھے راستے پر چلنے کی۔پر ہم اس دنیا کی رنگینیوں میں اتنا بہٹک چکے ہیں کہ ہم اس رب کی ذات کو بھول بیٹھے ہیں جس نے ہمیں پیدا کیا۔کیا اس نے ہمیں ایسے ہی بیج دیا اس دنیا میں؟ کیا ہم یہاں صرف گومنے،کھانے پینے،سونے اور کمانے کے لیے آئے ہیں؟ کیا اسی لیے ہمیں یہاں بیجا گیا؟۔۔۔نہیں بلکے اس نے ہمیں یہاں بیجا ہے اور یہ ہمارا امتحان ہے اور یہ امتحان ایک دن ختم ہو جانا ہے اس دن یہ دنیا فانی ہو جانی ہے۔۔پھر ہم اس فانی دنیا میں مگن ہو کر اللہ تعالی کو کیوں بھول جاتے ہیں۔۔وہ دنیا جس کے لیے خود اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ یہ دنیا محض ایک دوکہ ہے۔۔ہم کیوں دوکے میں آنے سے خود کو نہیں روکتے کیوں سہی جانتے ہوئے غلط راستا اختیار کرتے ہیں؟۔۔

اچانک باہر سے شور کی آوازین آئی تھی اس کا دھیان بھٹکا تھا۔۔اس نے سر جھٹک کر دوبارا قرآن پاک پڑنا شروع کیا۔۔پر شور کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑتا گیا۔اور شور اتنا تھا کہ وہ اسے نظر انداز کر کے قرآن پاک نہیں پڑھہ پا رہی تھی۔وہ شور اس کے پڑنے میں مداخلت کر رہا تھا۔۔اس نے قرآنپاک بند کیا۔۔دعا کے لیے ہاتھہ اٹھائے اس نے دعا کی۔۔دعا کے بعد اس نے قرآن پاک اسٹیڈی ٹیبل پے رکھا تھا۔۔ہاں وہ قرآن آج اس نے اپنی اسٹیڈی ٹیبل پے رکھا تھا۔۔جو اکثر ان کے گھروں میں کبٹس میں رکھا جاتا تھا۔۔ہاں آج اس نے ارادہ کیا تھا۔۔کہ وہ قرآن پاک روز پڑھے گی۔۔کیوں کی وہ ایسی کتاب نہیں جیسے بند کر کے رکھا جائے۔۔

وہ کمرے کا دروازا کھولے باہر نکلی تھی۔۔پورا لاؤنچ لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔۔ہر طرف لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے سے شوخیہ انداز میں باتیں کر رہے تھے۔۔ہر ایک کے ہاتھہ میں ڈرنک کا گلاس تھا۔۔ساؤنڑز تیز آواز میں چل رہے تھے۔۔لاؤنچ کا منظر کسی کلب کا منظر پیش کر رہا تھا۔۔اس نے گہرا سانس لیا۔۔اور نظریں دوڑائے اپنی ماں کو تلاشہ۔۔ادھر اودھر نظریں دوڑاتے بالہ آخر اسے اپنی ماں نظر آ گئی۔۔وہ ان کی طرف بڑ گئی۔۔

موم۔۔موم"۔۔اس نے اونچی آواز میں انہیں پکارا تھا۔۔وہ جو کھڑی کسی عورت سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی۔۔گوٹنوں تک آتی سیاہ شرٹ پہنی ہوئی تھی۔۔اور گولڈن کلر کا اس پر ٹرائوزر۔۔انہیں دیکھہ کر یہ انداز لگانا مشکل ہوتا تھا کہ وہ چار بچوں کی ماں ہے۔۔وہ اپنی فیٹنس کا ہمیشہ سے بہت خیال رکھتی تھی۔۔بالا آخر ایزل کی آواز ان کے کانوں پر پہنچی جو ان سے تھوڑا فاصلے پر کھڑی انہیں پکار رہی تھی۔۔وہ اٹھہ کر اس کے پاس گئی۔۔

"کیا ہوا میری جان!؟ اور آپ تیار کیوں نہیں ہوئی ایسے ہی آگئی ہیں؟"انیتہ نے اس کے حلیے پے گور کرتے پوچھا۔۔گلے میں لپٹا دوپٹہ وہی صبح والی سمپل بھوری شرٹ اور جینز میں ملبوس تھی۔۔بال بھی کچھہ بکھرے ہوئے تھے۔۔

"موم یہ سب کیا ہے؟ آپ کیوں ہر بار پارٹیز رکھہ لیتی ہیں"۔۔اور یہ سب آ جاتے ہیں کیا انہیں اپنے گھر میں سکون نہیں۔۔

ایزل نے سب کو دیکھہ کر چیڑنے والے انداز میں کہا۔۔تو انیتہ بے اختیار ہنس دی۔۔

"میری شہزادی! یہی تو دن ہیں انجوائمینٹ کے۔۔یہ سب بھی اپنی زندگی کو خوبصورت بنا رہے ہیں۔۔تم بھی جاؤ تیار ہو کر آؤ اور انجوائے کرو"۔۔

انیتہ نے پیار سے اس کا گال سہلایا اور واپس جاکر صوفے پی بیٹھہ گئی۔۔ایزل بس سب کو دیکھتی رہی ہر کوئی اپنے آپ میں مگن تھا۔۔ہاں وہ بھی ہوا کرتی تھی۔۔اس نے سوچا تھا۔۔آج پہلی بار اسے یہ چیزیں بے معنی لگی تھی۔۔وہ سر جھٹک کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔

☆☆☆☆☆

More Chapters